کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ مری کی دل آزاری مقصود نہیں بلکہ ساکنان کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبی کھار شہر خوباں کا درجہ حرارت جسم کے نارمل درجہ ھرارت یعنی 98 ڈگری سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر اے سی تیز کر دیتے ہیں۔ حسن خودبین و خود آرا جب 43 نمبر کےمشمولات کا 34 نمبر کے سوئٹر میں خلاصہ کر کتے آئینہ دیکھتا ہے تو حیا کی سرخی رخساروں پر دوڑ جاتی ہے جسے موسم سرما کے خون صالح پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس حسن تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصطلاح میں کولڈ ویو یعنی سردی کی لہر کہتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلودو گھیٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔ لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی شدید سردی کی خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچائو کے لئے بالو کی بھنی ہوئے مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں ۔ ان کے بچے بھی انہیں پر پڑے ہیں ۔ باد شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لئےاونی ٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں ۔ کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو تو گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال کے سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچیکے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہےکہ بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسم گرما کی علامت ہے اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑےتو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔
(مشتاق احمد یوسفی)