حکایتِ سعدی

ایک ظالم کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ غریب لوگوں سے جب جلانے کی لکڑی خریدتا تو انتہائی ارزاں قیمت پر ۔ لیکن بیچتے وقت وہ وہی لکڑی کافی مہنگی بیچتا تھا ۔ ایک صاحبِ دل اس کے پاس سے گزرا۔ اس کی حالت سے آگاہ ہوااور کہا کہ اے فلاں تو تو ایک سانپ کی طرح ہے ، جو جس کسی کو دیکھتا ہے ڈنگ مارتا ہے۔ یا تو ایک الو ہے کہ جہاں کہیں بیٹھتا ہے اسے ویرانہ بنا دیتا ہے ۔ یاد رکھو اگر تمہارا زور دوسروں پر چلتا ہے تو کل روزِ قیامت اللہ تعالیٰ پر نہ چلے گا ۔  پس زمین والوں پر زبردستی نہ کر،  تاکہ اآسمان پر کسی کی بد دعا نہ جائے

 پس اس  درویش کی بات سن کر وہ آدمی ناراض ہوا اوراس کی طرف سے منہ پھیر لیااور اس کی بات پر ذرا بھر بھی توجہ نہ دی ۔

سچ ہے کہ گویا اس کے مرتبہ اور دولت نے اسے گناہ میں مبتلا کر دیا ، یہاں تک کہ ایک رات اس کے باورچی خانہ میں اچانک  آگ لگ گئی جس سے اس کا سب بنایا ہوا مال و اسباب جل کر راکھ ہو گیا۔  جس سے وہ خالی ہاتھ ہو گیا ۔ ایک دن وہ دوستوں کے پاس بیٹھا تھا اور کہ رہا تھا کہ پتہ نہیں یہ آگ کیسے میرے باورچی خانہ میں لگی کہ وہی درویش قریب سے گزر رہا تھا ۔ 

اس نے سن کر کہا کہ غریبوں کے دل کے دھویں سے ۔ پس چاہیے  کہ آدمی کسی کا دل دکھی نہ کرے کیونکہ اندر کا زخم آخر باہر نکلتا ہے ۔ جہاں تک ہوسکے کسی کو دکھی اور پریشان نہ کرو، اس لئے کہ دکھی دل کی ایک آہ بھی جہان کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *