دوسری عالم گیر جنگ کا ہیرو(مشتاق احمد یوسفی)

مہینے میں ایک دو بار ایسا بھی ہوتا کہ رات کہ بارہ بج جاتے اور اکاؤنٹ کسی طرح "بیلنس" ہونے کا نام نہ لیتا ۔ حساب کو ہر سگریٹ کی دھونی اور چائے کے تریڑے دیے جاتے ۔ لیکن 2 اور 2 کسی طرح 4 نہ ہو پاتے ۔ فرق کبھی ایک لاکھ کا نکلتا اور کبھی سکڑ کر تین پائی رہ جاتا جواس پیشے میں ایک لاکھ سے زیادہ جان لیوا اور جوکھم کا ہوتا ہے ۔ یہ فرق بارش میں بھیگی ہوئی چارپائی کی کان کی طرح ہوتا ہے ۔ ایک پائے پر بیٹھو تو دوسرا اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ سارے محلے کے لونڈوں لاڑیوں کو کُدوانا پڑتا ہے ۔ ایک رات نحاس پاشا کنجو نے ترس کھا کر چپکے سے اپنی جیب  خاص سے ایک پیسہ ڈال کر حساب بیلنس کر دیا ۔ اس رات تو سب خوش خوش گھر چلے گئے ، لیکن دوسرے دن اصل غلطی مل گئی ۔ تین ہفتے تک اس پیسے کی وجہ سے سارے بینک کا اکاؤنٹ بیلنس نہ ہو سکا ۔ یہ پیسہ مقتول کی پھولی ہوئی لاش کی طرح سطح  حساب پر تیرتا رہا ۔ اور ہماری راتیں کالی ہوتی رہیں ۔ جب ایسی بھاری رات آتی تو کبھی کبھی ایک ڈیڑھ بجے پٹاخے چلنے کی آوازیں آتیں ۔ ہوتا یہ تھا کہ نحاس پاشا کنجو جب عاجز آجاتے تو ہزار ہزار صفحوں کے لیجر اتنے زور سے بند کرتے اور پٹختے کہ پٹاخے چھوٹنے لگتے ۔ یہ اعلان ہوتا تھا س بات کا کہ حساب کتاب جائے بھاڑ میں ، اب دوسری عالمگیر جنگ سے متعلق آپ بیتی کا ٹریلر دکھایا جائے گا۔ سب اپنے اپنے بلوں سے نکل کر ان کے گرد جمع ہو جاتے ۔ اور وہ اپنے شاہنامے کے چیدہ چیدہ حصے سناتے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ جرمنی کی شکست میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ سِدی رزیع میں ایک کنویں کی منڈیر کی اوٹ لے کر انھوں نے تھری ناٹ تھری رائفل سے ایک ہی گولی ایسی ماری کہ لُفٹ وافے جہاز کے دونوں پر جھڑ گئے اور وہ پھڑپھراتا ہوا پُوٹے کے بل کنویں میں آن گرا ۔  ایک طرف خدائی لشکر دوسری طرف ۔ انھوں نے میدانِ جنگ میں خدا کی حمایت میں ایک تقریر کی جس کے بعد بڑا خون خرابا ہوا ۔" گھمسان کا رن َ پڑا ۔ ایسا کنفیوژن تھا کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ گولی خود کو لگی ہے یا ساتھی کو ۔ جدھر نظراں اُٹھا کر دیکھو بندُوخاں توپاں ٹھائیں ٹھائیں چل رہی ہیں ۔ امواتاں وفاتاں ہو رہی ہیں ۔ زندگی میں پہلا موخعہ تھا کہ یک گھنٹے تک عورتاں کا خیال نہیں آیا ۔ الاماں! موت کا فرشتہ سر پہ چکراں پہ چکراں لگا رہا ہے ۔ اسپاں و ٹینکاں یک دوسرے کو ٹکراں پہ ٹکراں مار رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"

۔

 اسپ؟ گھوڑے؟" ہم نے حیرت سے پوچھا

اور کیا ہاتھی ٹکراں مارتے؟  فیلاں کا استعمال تو پورس کی وفات کے بعد ہی متروک ہا گیا تھا ۔ ہاں تو میں یہ کہ رہا تھا کہ چاروں طرف ، اتواپ گولہ باری کر رہی تھیں ۔ تین عدد گولہ جات میرے ڈنٹر پہ لگے ۔ 

انھوں نے بائیں آستین الٹ کر تین نہایت واضع نشان حاضرین کو دکھائے ۔ ایسے ہی تین نہایت واضع نشان ہمارے بائیں بازو پر بھی ہیں ۔ آپ کے بازو پر بھی ہوں گے ۔ مگر، ایں شہادت بزورِ بازو نیست۔ ہم نے پوچھا "تینوں گولے ایک ساتھ لگے" تلملا اٹھے ۔ کہنے لگے " جی نہیں خِبلہ!  کیو بنا کر باری باری دخول فرمایا تھا " ۔ سب نے ہمارے احمقانہ سوال پر زوردار قہقہ لگایا ۔

 

Comments 1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *