تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے (فیض احمد فیض)

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے

تلاش میں سحر بار بار گزری ہے

 

ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب

وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے

 

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

 

نہ گُل کھِلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

 

چمن میں غارتِ گلچیں پہ جانے کیا گزری

قفس سے صبا آج بے قرار گزری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *