جو اتنا ملائم ہے ، جیسے (میر تقی میر)

جو اتنا ملائم ہے ، جیسے

دھنک گیت بن کر سماعت کو چھونے لگی ہو

شفق نرم  کومل سروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو

کس قدر !۔۔۔۔۔رنگ و آہنگ کا کس قدر خوبصورت سفر!

وہی نرم لہجہ

کبھی اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرے گا

تو ایسا لگے

جیسے ریشم کے جھولے پر کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے لگا ہو!

وہی نرم لہجہ

کسی شوخ لمحے میں اس کی ہنسی بن کر بکھرے

تو ایسا لگے

جیسے قوسِ قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہو

ہنسی کی وہ رم جھم

کہ جیسے بنفشی چمکدار بوندوں کےگھنگرو چھنکنے لگے ہوں

کہ پھر

اس کی آواز کا لمس پا کے

ہواؤں کے ہاتھوں میں ان دیکھے کنگن کھنکنے لگے ہوں

وہی نرم لہجہ!

مجھے چھیڑنے پر جب آئے تو ایسا لگے

جیسے ساون کی چنچل ہوا

سبز پتوں کے جھانجھن پہن

سرخ پھولوں کی پائل بجاتی

میرے رخسار کو

گاہے گاہے شرارت سے چھونے لگے

میں جو دیکھوں پلٹ کے ، تو وہ

بھاگ جائے ۔۔۔۔۔مگر

دور پیڑوں میں چھُپ کر ہنسے

اور پھر ۔۔۔۔۔ننھے بچوں کی مانند خوش ہو کے تالیاں بجانے لگے!

وہی نرم لہجہ

کہ جس نےمرے زخمِ جاں پر ہمیشہ شگفتہ پھولوں کی شبنم رکھی ہے

بہاروں کے پہلے پرندے کی مانند ہے

جو سدا آنے والے نئے سکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے

اُسی نرم لہجے نے پھر مجھ کو آواز دی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *