پتھر
ریت سے بت نہ بنا اے مِرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں ترے سامنے انبار لگادوں۔۔۔۔۔ لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا؟
سرخ پتھر؟ جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہو ں ڈورے؟
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہو گی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
ایک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے
ایک اِنصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشئہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرا الہام ترا ذہنِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہیں
ہاتھ پتھر ہیں ترے میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار