کسی کی چاپ نہ تھی ، چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے فصلِ گل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم ایک دوسرے سے بچھڑے تھے
تمام عمر وفا کے گناہ گار رہے
یہ اور بات، کہ ہم آدمی تو اچھے تھے
تمہارے بعد، چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے
ہم اک نظر کے گنہگار کیا خدا سے کہیں
تمہیں کہو، کہ یہ تم تھے جو دل میں اترے تھے
ہمارے ذہن پہ پتھراؤ بے سبب تو نہ تھا
کہ ہم نے تِیرہ دلوں سے ستارے مانگے تھے
یہ فخر بھی تو بہت تھا ، کہ جو ہنسے ہم پر
وہ کوئی غیر نہیں تھے تمام اپنے تھے
ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے