اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے
رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر رکھے ہوئے لوگ
نہ کوئی یاد ، نہ آنسو، نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہیں لوگ
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں گے خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد باد زمانہ، یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا تھا فراز
کسی بھی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ