ختم ہوئی بارشِ سنگ
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سمت اندھیرا نہ اجالا ہو گا
بجُھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلئہ درد کا اب کیا ہو گا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۃ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کُھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کو صدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد