بازگشت
شام ڈھلے جب دور افق پر
اک اک کر کے
مدھم مدھم تارے روشن ہوتے ہیں
ذہن کے آتش دانوں میں انگارے روشن ہوتے ہیں
ایک سیہ نقطے پر آ کرہراک سوچ ٹھہر جاتی ہے
اک جانی پہچانی آہٹ
ہر اک اوٹ ہوا کے دوش پہ تیرتی ہے
بوجھل آنکھ کے آنگن میں
دو پیر تھرکتے رہتے ہیں
رات گئے تک
شہردل کے سناٹوں میں
گھنگھرو بجتے رہتے ہیں