دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو
شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی، پھول
اس دامن میں کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے ہم نے بیچ دی اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اہنائے تو
کیوں یہ مہر انگیز تبسم ، مدنظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آجائے تو
سی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے، چاہت اگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب ، تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا! میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو