کبھی لگتا ہے میں اک جھیل ہوں اونچے پہاڑوں پر
کہ جس سے ہو کے بستی کو کوئی راستہ نہیں جاتا
ہوائیں بھی چلیں تب بھی کہیں لہریں نہیں اُٹھتیں
کہ اندر رینگتی بیلیں ہمیشہ روکے رکھتی ہیں
بہت بارش ہو ، جل جھل بھی بھریں ، سیلاب بھی آئیں
کسی صورت مرا پانی کناروں سے کبھی باہر نہیں جاتا
چٹانوں کی فلک آسا فصیلیں پکڑے رکھتی ہیں
کوئی الفت زدہ جوڑا مرے پہلو نہیں بیٹھا
کسی بچے نے یونہی راستہ چلتے کبی پتھر نہیں پھینکا
کہ مجھ کو اپنے ہونے کا کسی صورت گماں ہوتا
کہیں پر دور میرے جسم کے گمنام حصے میں
کوئی خواہش ہے جو پھر بھی مجھے بےخواب رکھتی ہے
سحر سے رات تک اور رات سے پھر تا سحر یونہی
تکا کرتا ہوں چہرہ نیلے گنبد کا
کہ شاید پھر فلک سے قرمزی رنگوں کی بارش ہو
بدلتے موسموں کی پھوار میں کونجوں کی ڈاریں
پیش منظر کی سراپا بے حسی میں زندگی بھر دیں
کہ شاید رات کے پچھلے پہر دلدوز سناٹے
کا پہلو چیرتے انجان ملکوں کے پرندے ہجرتوں
کے گیت گاتے اجنبی دیسوں کی چاہت میں
فقط شب بھر کو مرے سینے پر آ اتریں
کبھی لگتا ہے میں اک جھیل ہوں اونچے پہاڑوں پر۔۔۔۔۔