شام کو صبحِ چمن یاد آئی
کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
غزل جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا
تیرے گیسو کی شکن یاد آئی
یاد آئے تِرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہئی فن یاد آئی
چاند جب دور افق میں ڈوبا
تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی
دن شعاعوں میں الجھتے گزرا
رات آئی تو کرن یاد آئی