دروازہ کھلا رکھنا (ابنِ انشا)

دل درد کی شدت سے خُوں گشتہ و سی پارہ

اِس شہر میں پھرتا ہے  اِک وحشی و آوارہ

شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا

 

سینے سے گھٹا اُٹھے آنکھوں سے جھڑی برسے

پھاگن کا نہیں بادل جو چار گھڑی برسے

برکھا ہے یہ بھادوں کی برسے تو بڑی برسے

دروازہ کھلا رکھنا

 

آنکھوں میں اِک عالم آنکھوں میں  تو دنیا ہے

ہونٹوں پہ مگر مہریں مُنہ سے نہیں کہتا ہے

کِس چیز کو کھو بیٹھا  کیا ڈھونڈنے نکلا ہے

دروازہ کھلا رکھنا

 

ہاں تھام محبت کی گر تھام سکے ڈوری

ساجن ہے ترا ساجن اب تجھ سے تو کیا چوری

یہ جس کی منادی ہے بستی میں تری گوری

دروازہ کھلا رکھنا

 

شکووں کو اُٹھا رکھنا آنکھوں کو بجھا رکھنا

اِک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا

مایوس نہ پھر جائے ہاں پاسِ وفا رکھنا

دروازہ کھلا رکھنا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *