رفیق
سرِ شام
میرے دریچے پہ جھک کر
گلِ زرد کی بیل نے یہ کہا
استعارہ ہوں میں منتظر آنکھ کا
جب ہوا سرسرائی تو مدت سے افسردہ پردوں نے انگڑائی لی
اور چاروں طرف ایک بے نام دکھ کی مہک رچ گئی
کارنس پر رکھی
ایک دوشیزہ تصویر کے گال پر
منجمد اشک بولا
سہارا ہوں میں منتظر آنکھ کا