کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی زسر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی