دیکھ تو دِل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کِس دِل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اِک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانئہ دِل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھِر اُس کو
جو تِرے آستاں سے اٹھتا ہے
یُوں اٹھے آہ اُس گلی ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عِشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے