خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ بنا نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانئہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۃ خدا نہ گیا
ہنسی میں وعدۃ فردا کو ٹالنے والے
لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے ا نہ گیا