موج
میں اک موج ہوں
اور اپنے ہی دریائے حسرت مکاں میں
اِدھر سے اُدھر ایک بے نام ساحل کی جانب
ازل سے رواں ہوں
نہ جانے کہاں ہوں
میں اک موج ہوں
سرکش و نا شکیبا
شبِ ماہ میں اور وحشت بڑھے گی
درندوں کی مانند ہر شے سے بھڑ کر
کئی زخم کھا کر پلٹنا
مگر پھر جھپٹنا
یہی میری ہستی کا مقصد ہے شاید
مرا کوئی ساحل نہیں ہے
مری کوئی منزل نہیں ہے
میں اک موج ہوں
زخم کھانا تڑپنا مری زندگی ہے
میں اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوں