گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ (ناصر کاظمی)

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران  کر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا  دورِ آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

   شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے نام اس کا پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *