لب تِرے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عذاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا رویئے کب تک
پھُوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب ، وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے ، سو خراب ہیں دونوں
ایک سب آگ ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۃ تر میر
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں