میں سوچتا ہوں کچھ اس سے کہوں
کوئی بات محبت الفت کی
کوئی بات سنہرے خوابوں کی
کوئی بات کہ جس کی رگ رگ سے
بے نام سی خوشبو پھوٹتی ہو
پھر سوچتا ہوں کیا حاصل ہے
گر اس کو سب کچھ کہہ بھی دیا
یہ لفظ اکارت جائیں گے
میں سوچتا ہوں اک گیت لکھوں
ان کومل پیارے ہاتھوں پر
اس پھولوں والے آنچل پر
جسے اوڑھ کے وہ اک پری لگے
کبھی سوچتا ہوں کوئی نظم کہوں
بس جس میں اس کی باتیں ہوں
ان گہری گہری آنکھوں پر
جن آنکھوں میں کئی صدیوں کے
کئی قصے ہیں افسانے ہیں
پھر اکثر یوں بھی سوچتا ہوں
میں کچھ نہ کہوں تو بہتر ہے
ہر زخم چھپا کر سینے میں
بس دکھ ہی سہوں یہ بہتر ہے
جہاں لفظ یقین سے خالی ہوں
وہاں چپ ہی رہوں یہ بہتر ہے