حالتِ دل کے سبب، حالتِ حال بھی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں ، پھر تری یاد بھی گئی
صحنِ خیالِ یار میں کی نہ بسر شبِ فراق
جب سے وہ چاندنہ گیا، جب سے وہ چاندنی گئی
اس کے بدن کو دی نمود ہم نے سخن میں اور پھر
اس کے بدن کے واسطے ایک قبا بھی سی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی
اس کے وصال کے لیے، اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل، کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
تیرا فراق جانِ جاں! عیش تھا کیا میرے لیے
یعنی تِرے فراق میں خوب شراب پی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی