چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دلِ مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سائے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا
بجھ گئی رونقِ پروانہ تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستم گر آیا
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا