شوق کا رنگ بجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا مری فصل ہو چکی کیا مرے دن گزر گئے
رہگزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کی گرد باد میں جانے کہاں بکھر گئے
شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہمناک
ہم نفسو کہاں ہو تم؟ جانے یہ سب کدھر گئے
حفظِ حیات کا خیال ہم کو بہت برا لگا
پس بہ ہجوم معرکہِ جاں کے بے سپر گئے
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار میرے لئے تو مر گئے