اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
راز کی باتیں لکھیں اور خط کھلا رہنے دیا
جانے کیوں رسوائیوں کا سلسلہ رہنے دیا
آرزوِ قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
عمر بھر میرے ساتھ رہ کر نہ وہ سمجھا دل کی بات
دو دلوں کے درمیاں اک فاصلہ رہنے دیا
میں سمجھتا تھا خوشی دے گی فریب مجھے
اس لئے میں نے غموں سے رابطہ رہنے دیا
یہ بھی ہے کوئی جینے میں جینا ، بغیران کے ادیب
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا