زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے
میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے
شورِ طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے
گھر میں کچھ کم ہے ، یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیم
یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے