حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے (قابل اجمیری)

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب

کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی

قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا

آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبئہ خاموش عشق

وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہلِ دل اندیشئہ سود و زیاں تک آ گئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *