آج بھی قافلئہ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی کام محبت کے بہت نازک ہیں
دل وہی کارگہِ شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہُوا روزِ وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا