بن ہو، ابر ہو، تیز ہوا ہو (احمد ندیم قاسمی)

بن ہو،  ابر ہو،  تیز ہوا ہو

تیرے حسن کا دیا جلا ہو

 

پَو بھی پھُٹھی طوفاں بھی اٹھا

اب کوئی کیا جانے کیا ہو

 

آج کی کلیاں کب چٹکیں گی

شاید مستقبل کو پتہ ہو

 

چاند بھی ساکن ، وقت بھی ساکن

شاید تو کچھ سوچ رہا ہو

 

پت جھڑ میں کیوں پھول نہ ڈھونڈے

جس نے تجھے کھو کر پایا ہو

 

تو نے یوں شرما کر دیکھا

جیسے تھک کر دیا بجھا ہو

 

میری تنہائی کی دعا ہے

تیرے ساتھ بھری دنیا ہو

 

وقتِ سحر یوں کلیاں چٹکیں

جیسے تیرا نام لیا ہو

 

دیئے بجھے ہیں ، پھول کھلے ہیں

شاید یہ شہراہِ صبا ہو

 

تو کہتا ہے تارا ٹوٹا

اور اگر آنسو ٹپکا ہو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *