بگاڑ ہو کہ بناؤ ، عجیب تیرے سبھاؤ
نگاہوں میں ہیں بلاوے تو ابروؤں میں تناؤ
گجر بجا ہے سہانا ، مگر کرو نہ بہانہ
جھکا قمر نہ دکھاؤ ، بجھا چراغ جلاؤ
اگر گھنا ہو اندھیرا ، اگر ہو دور سویرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاؤ
اجڑ رہے ہیں گھرانے ، بدل رہے ہیں زمانے
لپک رہے ہیں دیوانے اتار ہو کہ چڑھاؤ
خدا کے لب پہ ہنسی ہے ، خدائی جھوم رہی ہے
تمہاری بات چلی ہے میری حسین خطاؤ
اِدھر شباب کا مس ہے ، اُدھر شراب کا رس ہے
قدم قدم پہ قفس ہے ندیم دیکھتے جاؤ