نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے
فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا
بقدرِ ذوقِ نظر دیدِ حسن کیا ہو مگر
نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا
فراق راہِ وفا میں سبک روی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا