راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
کثرتِ داغِ محبت سے کھلا ہے گلزار
سیر کرتے ہیں مِرے دل میں گزرنے والے
آہ و افغاں سے گئے صبر وتحمل پہلے
چلنے والوں سے بھی آگے ہیں ٹھہرنے والے
حشر میں لُطف ہو جب ان سے ہوں دو دو باتیں
وہ کہیں کون ہو تم ہم کہیں مرنے والے
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تِری محفل سے ابھرنے والے