غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغئہ محشر! ہم کو نہ جگا جانا
کیا یار کی بدخوئی، کیا غیر کی بدخواہی
سرمایئہ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
کچھ عرضِ تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من! تم نے دل بھی نہ لگا جانا