تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری سرحدوں تک دِلوں میں لہلہاتی ہو!
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ، لہو میں جگمگاتی ہو!
ہزاروں طرح کے دلکش، حسیں ہالے بناتی ہو!
اِسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ، شام کو اِک بیج بوئے
اور شب میں بارہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے!
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خُو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سُننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اِسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو——– مجھ سے محبت ہے
کہو——– مجھ سے محبت ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہے