یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا
غمِ جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ قہرِ طوفاں بھی
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا
خوشا کہ آج ہر اک مدعی کے لب پر ہے
وہ راز جس نے ہمیں راندۃ زمانہ کیا
وہ حیلہ گر جو وفا جُو بھی ہے جفا خُو بھی
کیا بھی فیض تو کس بُت سے دوستانہ کیا