جب بھی گُلشن پہ گَھٹا چھائی ہے
چشمِ مَے گُوں، تِری یاد آئی ہے
کِس کے جَلووں کو نظر میں لاؤں
حُسن خوُد میرا تماشائی ہے
آپ کا ذکر نہیں تھا لیکن
بات پر بات نکل آئی ہے
زندگی بخش عزائم کی قسم
ناؤ ساحل کو بہا لائی ہے
مُجھ کو دُنیا کی مُحبّت پہ شکیبؔ!
اکثر اوقات ہنسی آئی ہے