کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو (مرزا غالب)

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

 

وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

 

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

 

قفس میں مجھ سے رُودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

 

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

 

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب

تِرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *