سراب
تھکے ہوئے آسماں کے مضمحل ستارے
جو ان راتوں کے ہم نصیبوں سے کہہ رہے ہیں
وفور و وارفتگی کے صحرا میں
نور کی ندیوں کا دیوانہ پن بھی کب تک
لہو کی یہ انجمن بھی کب تک
بدن کی بیساکھیوں سے تنہائیوں کے
یہ سنگلاخ رستے
گزر سکیں تو گزار لو پھر بدن بھی کب تک