نظر حیران دل ویران، میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان ! میرا جی نہیں لگتا
کوئی بھی تو نہیں ہے جو،پُکارے راہ میں مجھ کو
ہوں میں بے نام اک انسان،میرا جی نہیں لگتا
جہاں ملتے تھے ہم تم اور جہاں مل کر بچھڑتے تھے
نہ وہ دٓر ہے ،نہ وہ دالان،میرا جی نہیں لگتا
یہ سارا شہر اک دشتِ ہجومِ بےنیازی ہے
یہاں کا شور ہے ویران، میرا جی نہیں لگتا
کہیں سر ہے کہیں سودا، کہیں وحشت کہیں صحرا
کہیں میں ہوں، کہیں سامان ، میرا جی نہیں لگتا
میرے ہی شہر میں، میرے محلّہ میں، میرے گھر میں
بُلا لو تم مجھے مہمان، میرا جی نہیں لگتا
میں تم کو بھول جاؤں، بھولنے کا دکھ نہ بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان، میرا جی نہیں لگتا
کوئی پیمان پُورا ہو نہیں سکتا مگرپھر بھی
کرو تازہ کوئی پیمان، میرا جی نہیں لگتا