ہمارے عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ کو (افتخار عارف)

غالب کے دو مصرعے

ہمارے عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ کو

نوائے طائرانِ آشیاں گم کردہ آتی تھی

مگر ہم کو نہیں آتی

ہمیں آتا بھی کیا ہے

خبر کے اُس طرف کیا ہے

کبھی اُس پر نظر رکھنے کا فن ہم کو نہیں آیا

نظر کے زاویے کس طرح سے ترتیب پاتے ہیں

کہاں اور کس لیے ترتیب پاتے ہیں

کبھی ان زاویوں کو معتبر رکھنے کا فن ہم کو نہیں آیا

ہمیں بس خوئے ماتم راس آتی ہے

کوئی موجِ ہوائے تازہ کم کم راس آتی ہے

ہمارے عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ کو

نوائے طائرانِ آشیاں گم کردہ آتی تھی

مگر ہم کو نہیں آتی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *