ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں
ترے رخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں
غضب ہے نشیب و فرازِ زمانہ
نہ تم دیکھتے ہو، نہ ہم دیکھتے ہیں
تمنا ہے اب ہم کو بے حرمتی کی
سبھی کو یہاں محترم دیکھتے ہیں
چلو بے کمند و کماں آج چل کر
غزالوں کا اندازِ رَم دیکھتے ہیں
یہی تو محبت ہے یارو کہ اب وہ
ہماری طرف کم سے کم دیکھتے ہیں
خدایا ترے حُسنِ تقویم میں ہم
تضادِ وجود و عدم دیکھتے ہیں
نہ رُوٹھو جو لکھتے ہیں اوروں کو خط ہم
ذرا اپنا زورِ قلم دیکھتے ہیں
عجب کچھ ہے وہ سطرِ موئے بنفشی
جو روئے بیاضِ شکم دیکھتے ہیں
کھڑے ہو کہ ہم وقت کہ حاشیے پر
فساداتِ دیر و حرم دیکھتے ہیں