تپتی یادوں میں اک یاد سہانی ہوتی تھی
جلتی راتوں میں اک رات کی رانی ہوتی تھی
اب میں بھولتا جاتا ہوں سب، یاد بھی کیوں رکھّوں
پہلے تو ہر بات تمہیں بتلانی ہوتی تھی
اب تو میں بن شکوہ ہی سب ماننے لگتا ہوں
نہیں رہا میں اپنی جسے منوانی ہوتی تھی
میرے لب پر آ کر وصل بھی ماتم ہوتا تھا
غزل کے پیرائے میں نوحہ خوانی ہوتی تھی
یاد ہے تھجھ کو عقل، تو جب آتی تھی سمجھانے
اور تجھے ہر بار ہی منہ کی کھانی ہوتی تھی
یہاں وہاں کی باتیں کرتے رہتے تھے سب دوست
بیچ میں مجھ کو بات تری تو لانی ہوتی تھی
میرے لفظوں کا ہر مطلب تم پر کھلتا تھا
تم سے کچھ بھی کہنے کی آسانی ہوتی تھی
آج اس کو تم گنہ کہو یا خطا کہو لیکن
اوّل اوّل یہ میری نادانی ہوتی تھی
غزل میں اس کو گایا لیکن صیغۂِ ماضی میں
حال کے صیغے میں اجمل یہ گانی ہوتی تھی