تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے( محسن احسان)

تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے
رکھے تھے جو دِیے سرِ دیوار کیا ہوئے
چارہ گروں کی سازشِ چارہ گری گئی
اے شہرِ آرزو! تِرے بیمار کیا ہوئے
کندہ تھے جتنے حرف وہ کتبوں سے مِٹ گئے
قبروں سے پوچھتا ہوں مِرے یار کیا ہوئے
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سرِ کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *