شہر کی آنکھ میں مہتاب نہیں آ سکتا
گاؤں سے اڑ کے تو تالاب نہیں آ سکتا
روز اک پیڑ سے کرتا ہوں تمہاری باتیں
جو تمہیں دیکھنے پنجاب نہیں آ سکتا
گاؤں کے کچے سکولوں کی پڑھی لڑکی سن
شہر والوں کو ترا خواب نہیں آ سکتا
میرے شکوے پہ سمندر نے مجھے خط لکھا
چاند جتنا بھی ہو بے تاب نہیں آ سکتا
حسن والوں تمہیں ناقدری پہ رونا ہو گا
عشق تو ہو چکا نایاب نہیں آ سکتا
شاہزادی، ہیں برے دن ترے شہزادے پر
ریشم و اطلس و کمخواب نہیں آ سکتا
لوگ خوش خوش تھے عطا چشم کنارے آباد
وہ سمجھتے تھے کہ سیلاب نہیں آ سکتا