مجھ کو شکستِ دل کا مزہ یاد آ گیا
تم کیوں اداس ہو گئے، کیا یاد آ گیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بیوفا کا عہدِ وفا یاد آ گیا
واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
فردوسِ گمشدہ کا پتہ یاد آ گیا
مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
لیکن جو وہ وقتِ دعا یاد آ گیا!
حیرت ہے تم کودیکھ کے مسجد میں اے خمار
! کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا