پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے (محمد برکت اللہ رضا)

پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے
اُف کرکے رہ گیا میں کلیجہ سنبھال کے

کرتے ہیں یاد ہجر میں ہم دن وصال کے
پیری میں تذکرے ہیں جوانی کے حال کے

جانا اودھر کو طائرِ دل دیکھ بھال کے
خلقے نہیں ہیں زلف کے پھندے میں جال کے

چل جائیں آپ ہی پہ نہ جادو جمال کے
آئینہ دیکھیے گا ذرا دیکھ بھال کے

آہستہ کیسے ناز سے چلتے ہیں مہرو ماہ
انداز سیکھتے ہیں تری چال ڈھال کے

مردودِ خلق کوئی تو مسجود ہے کوئی
یہ ہیں کرشمے شانِ جلال و جمال کے

خود ہم نے اپنا خانہ دل کر دیا تباہ
پہلو سے تیرے تیر کا پیکان نکال کے

گوشے میں بیٹھ طمع نہ کر آسیا کو دیکھ
رزاق رزق بھیجتا ہے بے سوال کے

کس کی تلاش کرتے ہیں پہلو میں آج آپ
مدت ہوئی کہ پھینک دیا دل نکال کے

روتے ہیں خون آنکھوں سے اے ناوک افگنو
خواہان زخم سینہ سے پیکان نکال کے

دیدے دکھائیے نہ ہمیں غلیظ میں
گولی سے کب ڈرینگے جو عاشق ہیں خاک کے

او جذب دل نہ آئیگا جب تک وہ بے طلب
قائل نہ ہوں گے ہم کبھی تیرے کمال کے

کیونکر نہ خرمنِ دلِ عشاق پھونک دیں
مظہر یہ برق وش ہیں صفات جلال کے

غش آگیا کلیم کو اور طور جل گیا
یہ سب کرشمے تھے تری برق جمال کے

دفتر شکاتیوں کا نہ کھولیں گے وصل میں
چھیڑیں گے ہم نہ ذکر خوشی میں ملال کے

کیونکر نہ اپنا عشق ہو دنیا میں لاجواب
عاشق رضا ہیں ایک بتِ بے مثال کے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *