انہوں نے بارہ سیکنڈ میں تاریخ کا رخ بدل دیا
کیا آپ کا کوئی بیٹا ہے؟ اگر ہے تو کیا کبھی آپ کو کبھی یہ احساس ہوا ہے کہ آپ کا دیا ہوا کوئی کھلونا یا کتاب اس کیا زندگی بدک سکتی ہے؟ جیسا کہ 1878ء میں ایک پادری جو کسی مذہبی کام کے سبب سفر کر رہا تھا اس نے اپنے دو لڑکوں کے لئے مشینی کھلونا خرید لیا ۔ جب وہ گھر واپس آیا تو اس کے لڑکے اسے ملنے کے لئے بھاگے ۔ لڑکوں کو دیکھ کر اس نے کہا بیٹو! دیکھو میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں لو اسے کیچ کرو۔ اور اس نے ایک چیز ان کی طرف پھینک دی ۔ مگر وہ چیز لڑکوں کی سمت جانے کی بجائے چھت کی سمت اڑنے لگی اور چند لمحے بعد پھڑپھڑا کر زمین پر گر پڑی ۔لڑکے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے پکڑنے کے لئے بھاگے ۔
وہ ایک اڑنے والا مشینی کھلونا تھا جو تار، بانس اور کاغذ کا بنا ہوا تھا ۔ اس کھلونے نے ان لڑکوں میں پرواز کرنے کا ایک ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے ہم سب کی زندگیوں پر گہرا اثر کیا ہے ۔ہزاروں برس میں کسی دوسری ایجاد نے انسانی معاشرت کو اس قدر تبدیل نہیں کیا ۔
ان لڑکوں کا نام ولبر رائٹ اور آلور رائٹ تھا
وہ لڑکے اس اڑن کھلونے سے اتنی دیر تک کھیلتے رہے جب تک وہ ٹوٹ نہ گیا ۔ چونکہ ان کے پاس دوسرا کھلونا خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے لہٰذا انہوں نے خود ہی دوسرا کھلونا بنا لیا ۔ بعد میں انہوں نے پتنگیں بنانی شروع کر دیں جو اتنی عمدہ ہوتیں کہ سارے محلے کے لڑکے انہیں سے خریدتے ۔
اس وقت سے رائٹ برادران کے دل میں اڑنے کی خواہش کروٹیں لینے لگی ۔ وہ گھنٹوں پشت کے بل سیدھے لیٹے پتنگوں کو اڑتے دیکھتے تھے ۔ وہ چڑیوں اور کبوتروں کو بھی اڑتا دیکھتے رہتے اور یہ بھی دیکھتے کہ کس طرح عقاب بغیر کوئی پر ہلائے ہوا کی لہروں پر اڑتا رہتا ہے ۔ ایک دن انہون نے اخبار میں برلن کے ایک انجینئر ٹولینن تھال کی خبر پڑھی جو پرواز کی کوشش کے دوران ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس خبر نے انہیں بے حد متاثر کیا ۔ یہ شخص یعنی تھال کئی برس سے اپنے دونوں شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کرایک پہاڑی سے نیچے کی جانب اڑا کرتا تھا ۔ اگرچہ وہ نیچے کی جانب اڑ سکتا تھا لیکن یہ بھی تو اڑنے کے مترادف تھا ۔ اور کوئی دوسرا آدمی اس کی ہمسری نہ کر سکتا تھا ۔
یہ خبر ان بھائیوں کی زندگی میں کایا پلٹ ثابت ہوئی کیونکہ لینن تھال نے ثابت کر دیا تھا کہ ایک عقاب کی طرح انسان بھی ہوا کے دوش پر اڑ سکتا ہے ۔
ولبر اور آرول رائٹ کو ایک ایسا خیال سوجھ گیا تھا جو جلد ہی ان کی زندگی کی قوتِ متحرکہ بن گیا ۔ انہوں نے واشنگٹن میں سمتھ سونین ادارے کو خط لکھا اور اس سے ان تمام مضامین کی فہرست منگوا لی جو انسانی پرواز کے بارے میں لکھے گئے تھے ۔ وہ بڑے جوش و خروش سے یہ مضامین پڑھتے رہے ۔
آخر کار چار برس کے مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنے شوق کی خاطر دھات کا ایک پتنگ نما صندوق بنانے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی مشین بنانے کا خواب نہیں دیکھا تھا جو زمان و مکان کے تصور اور زمین کے جغرافیے میں انقلاب بپا کر دے گی ۔ لیکن ان کی ایجاد نے یہی کچھ کیا ۔ کیونکہ ہوائی جہاز کے ذریعے ہم دنیا کے دوسرے کنارے تک چند گھنڑوں میں پہنچ سکتے ہیں ۔ ہوائی جہاز نے دنیا کی جسامت ہماری نظروں میں بہت کم کر دی ہے ۔
کیا رائٹ برادران خود کو سائنس دان یا مؤجد تصور کرتے تھے ؟ ہر گز نہیں ۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے فالتو وقت کے لئے کوئی نہ کوئی مشغلہ اختیار کر لیتے ہیں اسی طرح انہوں نے ہوا میں پرواز کرنے کا مشغلہ اپنا رکھا تھا ۔
چونکہ انہیں اپنی روزی بھی خود ہی کمانی تھی لہٰزا انہوں نے ڈے ٹیون اوہائیو میں سائیکلوں کی خرید و فروخت کی دکان کھول رکھی تھی ۔ رات کے وقت دکان بند کرنے کے بعد وہ ہوا میں پرواز کرنے کے تجربات میں مشغول ہو جاتے تھے ۔
ان کے پہلے پتنگ نما صندوق پر صرف تین ڈالر خرچ ہوئے اس کے اوپر دو بازو تھے جو ایک دوسرے کے اوپر تھے اس کا کوئی جسم اور نہ کوئی دم تھی اور نہ اس میں کسی قسم کا انجن تھا ۔
رائٹ برادران نے اس پتنگ نما صندوق میں اڑنے کی کوشش کے سلسلے میں اپنی تعطیلات کا وقت منتخب کیا ۔ انہیں موسمیات کے دفتر سے پتہ چل گیا تھا کہ شمالی کیلیفورنیا میں کِل ڈیوڈ ہل اڑنے کے لئے بہترین جگہ ہو گی ۔ وہاں ہر وقت سمندر کی سمت سے تیز ہوا چلتی رہتی ہے اور ساحل کی ریت بھی بہت نرم ہے پہاڑی پر سے جب وہ اپنے پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر نیچے آئے تو انہیں کوئی حادثہ پیش نہ آیا مگر وہ چند سیکنڈ سے زیادہ ہوا میں ٹھہر نہ سکے ۔ اگلے برس انہوں نے پہلے کی نسبے بڑا اور بہتر صندوق بنایا ۔ اس مرتبہ بھی نتائج کچھ حوصلہ افزاء نہ تھے ۔ اور رائٹ برادران نے اعلان کر دیا کہ انسان ابھی ایک ہزار برس تک ہوا میں پرواز نہ کر سکے گا ۔ وہ ہوا میں پرواز کرنے کی جدوجہد ترک کرنے پر تیار ہو گئے ۔ اور ممکن ہے آج ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوتا اگر ایک انجینئر ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتا ۔ اس انجینئر کا نام ایکٹو چینوٹ تھا ۔ اس نے اڑن مشینوں میں ترقی نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی اس کتاب نے اسے ہوائی پرواز پر ایک اتھارٹی بنا دیا تھا ۔ رائٹ برادران کی پرواز کے وقت وہ بھی وہاں موجود تھا ۔ ان کی مایوسی کے باوجود انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہ انہوں نے دوری کے تمام ریکارڈ مات کر دیئے ہیں ۔ اور وہ دنیا کے دو کامیاب ترین پرواز کرنے والے تھے ۔
اس مشہور سائنسدان کی زبان سے ستائش کے یہ الفاظ سن کر انہیں حییرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی ۔ حیرت اس لئے کہ انہوں نے کبھی کالج کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی کوئی فنی تربیت حاصل کی تھی ۔ جب اس نے ولبر کو اپنے ہوائی تجربے کے بارے میں شکاگو کی ویسٹرن سوسائٹی آف انجینئرز کے سامنے تقریر کرنے کی دعوت دی تو ان بھائیوں کو اور بھی حیرت ہوئی ۔
ولبر رائٹ اپنی شکاگو والی تقریر میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہوائی جہاز کے بازوؤں پر ہوا کا جو اثر ہوتا ہے اس کے متعلق سائنس دانوں نے جس قدر نقشے اور اندازے تیار کئے ہین، وہ سب کے سب غلط ہیں ۔ لیکن اس کا بھائی آرول اس سخت تنقید پر چوکنا ہو گیا اور اس نے احتیاط کے طور پر سائنس دانوں کے تیار کئے ہوئے نقشے اور اعداد و شمار کو آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے لکڑی کا اٹھارہ انچ لمبا ایک صندوق لیا اور اس کا منہ دو طرف سے کھول دیا اور اس کے ایک سرے پر ہوا پیدا کرنے کے لئے ایک مشینی پنکھا لگایا ۔ اس صندوق کے منہ پر شیشہ چسپاں کر دیا تا کہ وہ اس کے اندر جھانک کر یہ معلوم کر سکے کہ ہوا اس چھوٹے سے ہوائی جہاز کے مختلف سائز کے پروں پر کیا اثر کرتی ہے ۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نی تھی کہ وہ دنیا کی پہلی ہوائی سرنگ بنا رہا ہے ۔ اور سائیکا بنانے والا کوئی شخص یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ ہوا کے دباؤ کے متعلق نامور سائنس دانوں کے جمع کئے ہوئے اعدا و شمار اور نقشوں کو وہ غلط ثابت کر دے گا ۔ آرول رائٹ نے ان سرنگوں سے جو علم حاصل کیا اس کی عم موجودگی میں نہ تو رائٹ برادران اور نہ ہی دنیا کا کوئی دوسرا شخص ہوائی بنا کر اڑا سکتا ۔
ان تجربوں نے ان فنی حقائق کا انکشاف کیا جن پر موجودہ دور کے ہوائی سفر کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ اگر ولبر رائٹ نے شکاگو میں تقریر نہ کرنی ہوتی تو عین ممکن ہے کہ رائٹ برادران ہرگز یہ تجربے نہ کرتے ۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر کئی کامیاب پروازیں کیں ۔ لیکن انہیں اپنے اڑن صندوق کے لئے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی ۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پتھر تیز اور تھپیڑے دار ہوتی ۔ آخر تنگ آکر انہوں نے ایک فیصلہ کیا جس نے پرواز سے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب بر پا کر دیا ۔ وہ فیصلہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کس طرح؟ انہوں نے اپنے ہوائی جہاز میں پٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی تاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے ۔ چونکہ کوئی مینو فکچرر اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتا تھا لہٰذا انہوں نے خود ہی رات کے وقت اپنی دکان کے اندر ایسا انجن تیار کیا ۔
اس مشین کے ذریعے انہوں نے 17 دسمبر 1903 کو شمالی کیلیفورنیا میں کِل ڈیوڈ ہل کے مقام پر تاریخ میں پہلی انسانی پرواز کی ۔ اس دن غضب کی سردی تھی ۔ لیکن اس سردی کے باوجود جب آرول رائٹ جہاز میں سوار ہوا تو اس نے اور کوٹ نہیں پہنا ہوا تھا کیونکہ وہ ہوائی جہاز پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔
دس بج کر پینتیس منٹ پر آرول رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا ۔ پھر اس نے سوئچ آن کر دیا ۔ عجیب و غریب مشین کے دہانے سے شعلے باہر کی سمت لپکنے لگے ۔ ناممکن بات ممکن ہو گئی تھی ۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اڑنے لگی ۔ اور اس نے 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا ۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم واقعہ تھا ۔ ا س کے باوجود آرول رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل پیدا نہ کی تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گی ۔ اور ایسا ہو گیا ۔
جب رائٹ برادران تاریخ کی پہلی کامیاب پرواز کے بعد گھر واپس آئے تو کیا ہوا؟ کیا لوگوں نے بینڈ باجے سےا ن کا استقبال کیا ؟ نہیں بالکل نہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ان کے قصبے کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کی مگر سرسری طور پر جیسے وہ بالکل اہم نہ ہو ۔
ایک سال کے اندراندر رائٹ برادران پچیس میل لمبی پرواز کرنے لگے ۔ لیکن وہاں کے اخباروں نے اس معجزے کا ذکر تک نہ کیا ۔ وہ معمول کی خبریں شائع کرتے رہے ۔ لیکن پرواز کرنے والی اس مشین کے بارے میں ایک لفظ نہ لکھا جس نے جغرافیے اور فنِ جنگ کو ایک نئی شکل میں ڈھال دینا تھا ۔
ایک طویل عرصے تک سائنسی رسالوں نے بھی رائٹ برادران کی اڑن مشین کے متعلق کوئی مضمون شائع نہ کیا ۔ آخر کیوں؟ اس لئے کہ شاید وہ اس کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہے ۔
ولبر رائٹ 1912ء میں ٹائیفائیڈ بخار سے مر گیا ۔ لیکن آرول رائٹ 1948ء تک زندہ رہا اس نے شادی نہیں کی تھی ۔ وہ انتہائی منکسر المزاج تھا اور دولت اور شہرت کا بالکل بھوکا نہ تھا اس لئے وہ اخبار کے نمائندوں سے ملنے سے انکار کر دیتا ۔
آرول اور ولبر رائٹ کی پہلی پرواز فقط دس سیکنڈ کی تھی لیکن وہ دس سیکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گونج رہے ہیں ۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا ۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا ۔