ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ وہ سمجھیں گے مِری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
لیتا ، نہ اگر دل تمہیں دیتا ، کوئی دَم چین
کرتا ، جو نہ مرتا ، کوئی دن آہ و فغاں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور