بدن نزار ہوا دل ہوا نڈھال مرا
اس آرزو نے تو بھر کس دیا نکال مرا
پلٹ کے بھی نہیں دیکھا پکار بھی نہ سنی
رہا جواب سے محروم ہر سوال مرا
جہاں اٹھانے ہیں سو رنج ایک یہ بھی سہی
سنبھال خود کو مرے دل نہ کر خیال مرا
وہ زلف باد صبا بھی تھی جس کی باج گزار
اسی کے قرض میں جکڑا ہے بال بال مرا
خزاں میں بھی وہی رونق ہے جو بہار میں تھی
نہیں نشاط سے کم مرتبہ ملال مرا